رکھی تھی طاق پر پہنچی
کوئی کمبخت وہاں آ پہنچی
وہ لے پہنچی، وہ چل پہنچی
خبر پہنچی تو یہ پہنچی
کہ پہنچی یہاں نہیں پہنچی
"پہنچی" ایک زیور کا نام ہے اور "پہنچی" کہیں
پہنچنے کو بھی کہتے ہیں
کوئی کمبخت وہاں آ پہنچی
وہ لے پہنچی، وہ چل پہنچی
خبر پہنچی تو یہ پہنچی
کہ پہنچی یہاں نہیں پہنچی
"پہنچی" ایک زیور کا نام ہے اور "پہنچی" کہیں
پہنچنے کو بھی کہتے ہیں
Labels: Poetry
1 Comment:
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Blog Archive
-
▼
2009
(47)
-
▼
July
(20)
- اچھی باتیں
- ایک قطعہ
- فرام اکبر الہ آبادی
- سعادت مندی
- میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
- ہائے ہائے یہ ڈاکٹر
- اوئے - - - میں امریکی نہیں ہوں
- پاپا کہتے ہیں
- Shakespeare here
- انکل غالب کی یاد میں
- Hiccups..how to stop
- New Stomach
- رکھی تھی طاق پر پہنچی
- یہ حوصلہ کیسے جھکے
- یہ حوصلہ کیسے جھکے
- تُمھیں کیا، یہ میری زندگی ہے
- King's remains before switching to Maya
- King's remains before switching to Maya
- King's new looks in Maya-2
- King's new looks in Maya
-
▼
July
(20)
very nice lines....Ansari.
happy blogging,
Sanober here