ان کی تحاریر جب سکول اور کالج میں ہم پر زبردستی مسلط کی جا رہی تھیں
تو بلاۓ جان تھیں اور سمجھ سے کافی حد تک بالا تر- لیکن اب چونکہ کوئی
زبردستی گلے پڑنے والی کیفیت احتتام پزیر ہو چکی ہے تو پڑھنے میں
بھلی معلوم ہوتی ہیں
تمہید
تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب
بہت عرصہ گزرچکا ہے، اس ليے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے
کی ضرورت نہیں۔
یہ کہنے کی اب ضرورت نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے۔ حتیٰ کہ
ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے پھر فلاں طول البلد اور فلاں
عرض البلد کے مقام انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیئے۔ جہاں یہ نام کُرے
پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس ساری تحقیقات کو مختصر مگر
جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہی ہے، اگر اس پتے
سےآپ کو لاہور نہیں مل سکتا، تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے۔
اس بارے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ہم دوسرے شہر والوں کے بارے میں
لاہوری-ایٹس کا کہنا ہے کہ آپ ابھی جمے نہیں ہیں، لیں جی، ہم کیا
برف ہیں یا یوگرٹ کہ ہم جمے نہیں۔ اس لحاظ سے میرا یہ خیال ہے
کہ لاہوری-ایٹس ابھی خود جمنے کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہو پاۓ،
کیونکہ ہم جب بھی لاہور جاتے ہیں، کوئی نہ کوئی جگہ یا ایڈریس تلاش
کرنا مقصود ہوتا ہے تو مجال ہے کسی لاہوری-ایٹ کو والٹن روڈ کا یا
ایم ایم عالم روڈ کا پتہ ہو، گلبرگ 3 میں علی زیب روڈ کا یا جامِ شیریں
گارڈنز کا پتہ ہو، ٹوٹل پیٹرل پمپ یا چکن کاٹِج کا پتہ ہو-
چلیں لاہور کے جغرافیے کی طرف واپس چلتے ہیں -
محل وقوع
ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن
پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا
بہتے ہیں۔ اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو
اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔
ملنے کا پتہ یہ ہےکہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں دریا
لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس ليے یہ بتانا بھی مشکل ہے
کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔
باقی اگلی نشست میں۔
تو بلاۓ جان تھیں اور سمجھ سے کافی حد تک بالا تر- لیکن اب چونکہ کوئی
زبردستی گلے پڑنے والی کیفیت احتتام پزیر ہو چکی ہے تو پڑھنے میں
بھلی معلوم ہوتی ہیں
تمہید
تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب
بہت عرصہ گزرچکا ہے، اس ليے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے
کی ضرورت نہیں۔
یہ کہنے کی اب ضرورت نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے۔ حتیٰ کہ
ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے پھر فلاں طول البلد اور فلاں
عرض البلد کے مقام انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیئے۔ جہاں یہ نام کُرے
پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس ساری تحقیقات کو مختصر مگر
جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہی ہے، اگر اس پتے
سےآپ کو لاہور نہیں مل سکتا، تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے۔
اس بارے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ہم دوسرے شہر والوں کے بارے میں
لاہوری-ایٹس کا کہنا ہے کہ آپ ابھی جمے نہیں ہیں، لیں جی، ہم کیا
برف ہیں یا یوگرٹ کہ ہم جمے نہیں۔ اس لحاظ سے میرا یہ خیال ہے
کہ لاہوری-ایٹس ابھی خود جمنے کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہو پاۓ،
کیونکہ ہم جب بھی لاہور جاتے ہیں، کوئی نہ کوئی جگہ یا ایڈریس تلاش
کرنا مقصود ہوتا ہے تو مجال ہے کسی لاہوری-ایٹ کو والٹن روڈ کا یا
ایم ایم عالم روڈ کا پتہ ہو، گلبرگ 3 میں علی زیب روڈ کا یا جامِ شیریں
گارڈنز کا پتہ ہو، ٹوٹل پیٹرل پمپ یا چکن کاٹِج کا پتہ ہو-
چلیں لاہور کے جغرافیے کی طرف واپس چلتے ہیں -
محل وقوع
ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن
پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا
بہتے ہیں۔ اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو
اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔
ملنے کا پتہ یہ ہےکہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں دریا
لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس ليے یہ بتانا بھی مشکل ہے
کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔
باقی اگلی نشست میں۔
Labels: متفرقات
0 Comments:
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Blog Archive
-
▼
2009
(47)
-
▼
August
(15)
- Nice to read
- Confidence
- Feeling lonely is hard on a woman’s arteries...hah!
- گردی
- آج کا دن بہت برا ہے! ـ
- خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
- میری پسند
- جوابِ جاہلاں خامشی باشد
- دل میں یوں روز انقلاب آئے
- So very cute and cool
- 14th Augustus
- لاہور کا جغرافیہ از پطرس بخاری-1
- Quotes
- ایک قطعہ
- کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
-
▼
August
(15)